روزانہ کی بنیاد پر ای میل کا حصول

Tuesday, November 19, 2013

بر سرِ کُفر و دیں فشاں رحمتِ عام خویش رَا


بر سرِ کُفر و دیں فشاں رحمتِ عام خویش رَا
بندِ نقاب بَر گُشا ماہِ تمام خویش رَا

اے خدا! اہل کفر اور اہل ایمان دونوں پر اپنی رحمت عام تچھاور کر
اپنے چودھویں کے چاند جیسے چہرے سے نقاب ہٹادے
{کیونکہ تیری رحمت تو ہر ایک کے لیئے ہیں،جب تیرے چہرے کی انوار و تجلیات مومن
دیکھے گا تو اس کا ایمان اور مضبوط ہوگا، اور جب اسے کافر دیکھیں گے تو یقینا تجھ پر
ایمان لائیں گے}

زمزمۂِ کُہن سراے، گردشِ بادہ تیز کُن
باز بہ بزمِ ما نگر ، آتشِ جام خویش را

{شاعر خدا سے التجا کرتا ہے} پرانا گیت پر سے گا اور شراب کی گردش کو تیز کردے
{کیونکہ موجودہ زمانے نے لوگوں کو عشقِ خدا سے بیگانہ کردیا ہے}
پھر ہماری محفل میں اپنے پیالے کی آگ {شراب} کا اثر دیکھ
{پرانے گیت اور شراب سے مراد اپنے اسلاف کی اقدار ہیں}

دامِ ز گیسواں بدوش زحمتِ گُلستاں بَری
صَیدِ چِرا نَمی کُنی طایرِ بامِ خویش را

تو اپنی زلفوں کے جال کندھوں پر پھیلا کر شکار کے لیئے باغ میں جانے کی تکلیف کررہا ہے
تو اپنے مکان کی چھت پر بیٹھے ہوئے پرندے کا شکار کیوں نہیں کرتا
{تیرے عاشق کب سے تیری نگاہِ ناز کا تیر کھانے کو تیار بیٹھے ہیں}

ریگِ عراق منتظر ، کِشتِ حجاز تشنہ کام
خونِ حُسین باز دِہ کوفہ و شامِ خویش را

عراق کی ریت انتظار کررہی ہے اور حجاز{مکہ مدینہ} کے کھیت پیاسے ہیں
کوفہ اور شام کو پھر سے خونِ حسین رضی اللہ عنہ کی ضرورت ہے { مراد حق کی آواز
بلند کرنے والی کی ضرورت ہے

"زبورِ عجم" علامہ محمد اقبال رح

اس پوسٹ کو شیئر کریں!
SHARE IT →

0 comments:

Post a Comment

 
ترجمہ کردہ : محمد بلال اعظم