روزانہ کی بنیاد پر ای میل کا حصول

Thursday, November 21, 2013

فرقی ننہد عاشق در کعبہ و بتخانہ

فرقی ننہد عاشق در کعبہ و بتخانہ
این جلوت جانانہ آن خلوت جانانہ

منظوم ترجمہ
عاشق کے لیے یکساں کعبہ ہو کہ بت خانہ
یہ جلوتِ جانانہ، وہ خلوتِ جانانہ

از بزم جہان خوشتر از حور جنان خوشتر
یک ھمدم فرزانہ وز بادہ دو پیمانہ

منظوم ترجمہ
بہتر ہے زمانے سے فردوس سے خوش تر ہے
اک ساغرِ مے ساقی اک ہمدمِ فرزانہ

ہر کس نگہی دارد ہر کس سخنی دارد
در بزم تو می خیزد افسانہ ز افسانہ

منظوم ترجمہ
ہر اک کی نگاہ تجھ پر ہر اک کو سخن تجھ سے
پیدا تری محفل میں افسانے سے افسانہ

این کیست کہ بر دلہا آوردہ شبیخونی
صد شہر تمنا را یغما زدہ ترکانہ

منظوم ترجمہ
یہ کون سے قاتل نے خوں گشتہ کیا دل کو
اک شہرِ تمنا کو غارت کیا ترکانہ

در دشت جنون من جبریل زبون صیدی
یزدان بہ کمند آور ای ہمت مردانہ

منظوم ترجمہ
جبریل تو ادنی سا ہے صیدِ زبوں میرا
یزداں تہِ دام آئے اے ہمتِ مردانہ

اقبال بہ منبر زد رازی کہ نباید گفت
نا پختہ برون آمد از خلوتِ میخانہ

منظوم ترجمہ
اقبال نے منبر پہ ہر رازِ نہاں کھولا
نا پختہ ہی اٹھ آیا از خلوتِ میخانہ 


Wednesday, November 20, 2013

از کلیمے سبق آموز کہ داناے فَرَنگ

از کلیمے سبق آموز کہ داناے فَرَنگ
جگرِ بحر شگافید و بہ سینا نَرَسید

کسی کلیم { اللہ سے کلام کرنے والے،مراد اہل اللہ} سے وہ سبق سیکھ { جو تجھے معرفتِ
الہی سے آشنا کردے} کیونکہ یورپ کے دانشوروں اور سائنسدانوں نے سمندر کی گہرائیوں
کو جانچھ لیا لیکن وہ وادی سینا { جہاں موسی علیہ السلام نے خدا سے ہمکلامی کا شرف
حاصل کیا} تک نہیں پہنچ سکے
{اہل یورپ کائنات کے راز تو جانتے ہیں لیکن خالقِ کائنات کی معرفت سے بے بہرہ ہیں}

"زبورِ عجم " علامہ محمد اقبال رح


سنگ می باش و دَرین کارگہِ شیشہ گُزر

سنگ می باش و دَرین کارگہِ شیشہ گُزر
واے سنگِ کہ صنم گَشت و بہ مینا نَرَسید

پتھر بن کر اس شیشے کے کارخانے {دنیا} سے گزر جا
افسوس ہے اس پتھر پر جو بت تو بن گیا { نہ بول سکتا ہے اور نہ ہی سن سکتا ہے} لیکن
صراحی نہ بن سکا جس میں کم از کم شراب ڈال کر مے خواروں کی پلائی جاتی{ یعنی بے کار
شئے سے کارآمد چیز بہتر ہے}

کُہنہ را دَر شِکن و باز بہ تعمیرِ خرام
ہر کہ دَر ورطۂ ’’لا‘‘ ماند بہ ’’الا‘ نرسید

پرانی چیزوں کو توڑ کر از سرِ نو تعمیر کا عمل شروع کردے
جو کوئی بھی "لا" { لاالہ یعنی کوئی معبود نہیں} کے بھنور میں پھنس گیا وہ "الا" { الا اللہ
یعنی اللہ معبود ہے} کے ساحل تک نہ پہنچا

{ یعنی پہلے تمام باطل معبودوں کی نفی کرکے ایک خدا کی ربوبیت کو تسلیم کرنا ہی
مقصودِ فطرت ہے}

"زبور عجم" علامہ محمد اقبال رح

Tuesday, November 19, 2013

کوہِ آتِش خیز کُن ایں کاہ را


کوہِ آتِش خیز کُن ایں کاہ را
ز آتشِ ما سوز غیر اللہ را

اس گھاس پھوس{ تنکے} کو آتش فشاں پہاڑ بنادے
ہماری آگ کو وہ تپش عطا کر کہ وہ ماسواء اللہ کو جلادے{ تیرے سوا ہر شئے کو جلادے}

رشتہِ وحدت چو قوم از دَست داد
صَد گرہ بر روے کارِ ما فَتاد

جب سے قوم نے وحدت کا رشتہ چھوڑا
ہمارے کام کے رشتے{ دھاگے } میں سینکڑوں گرہیں پڑ گئی

ما پریشان دَر جہاں چوں اَختریم
ہمدم و بیگانہ از یک دیگریم

ہم دنیا میں ستاروں کی طرح منتشر ہوکر رہ گئے
اگرچہ ہم ساتھی ہیں {ایک دوسرے کے پاس رہتے ہیں}لیکن ایک دوسرے سے ناآشنا{ اجنبی} ہیں

باز ایں اوراق را شیرازہ کُن
باز آئینِ محبت تازہ کُن

ان بکھرے ہوئے اوراق کی پھر شیرازہ بندی کردے{بندھ جانے کا سامان کردے}
پھر سے {وہی پہلے والا } محبت کا دستور تازہ کردے

باز ما را بَر ہَماں خدمت گمار
کارِ خود با عاشقانِ خود سپار

ہمیں پھر سے وہی خدمت سونپ دے،جس پر ہم پہلے مامور تھے
اپنا معاملہ اپنے عاشقوں کے سپرد کر

رہرواں را منزلِ تسلیم بخش
قوتِ ایمانِ ابراہیم بَخش

ہمیں چلنے والوں کو تسلیم کی منزل عطا کر
ابراہیم علیہ السلام کے ایمان کی قوت عطا کر

عشق را اَز شُغلِ لا آگاہ کُن
آشناے رمزِ الااللہ کُن

عشق کو پہلے "لا" کے وظیفہ سے آگاہ کر
پھر اسے "الااللہ" کی رمز{بھید} سے آشنا کر

"اسرارِ خودی" علامہ محمد اقبال رح

روح دَر تَن مُردہ اَز ضُعفِ یقیں



روح دَر تَن مُردہ اَز ضُعفِ یقیں
نااُمید اَز قوّتِ دینِ مبیں

ایمان کی کمزوری سے اس{ مسلمان} کی روح بدن میں مرچکی ہے
اور دینِ مبین اسلام کی قوت سے نا امید ہے

تُرک و ایران و عرب مستِ فرنگ
ہر کسے را دَر گلو شستِ فرنگ

تُرک ہو یا ایران یا عرب سب مسلم ممالک فرنگیوں کے {افکار} سے بری طرح سرمست ہیں

ہر ایک کے گلے میں فرنگیوں {انگریزوں} کا پھندا پڑا ہوا ہے

"جاوید نامہ" علامہ محمد اقبال رح

مَگسل اَز ختمِ رُسل ایّامِ خویش


مَگسل اَز ختمِ رُسل ایّامِ خویش
تکیہ کَم کُن بَر فن و بر گامِ خویش

{اے مسلمان} اپنی زندگی کا رشتہ/ناطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مت توڑ
اپنے علم وفن اور روش{رفتار} پر بھروسہ مت کر

فطرتِ مُسلم سراپا شفقت اَست
دَر جہاں دَست و زُبانِش رحمت اَست

مسلمان کی فطرت سر سے پاوں تک {سراسر} شفقت ہے
اس دنیا میں اس کا ہاتھ اور اسکی زبان رحمت کا پیغام ہے

آنکہ مہتاب اَز سرِ اُنگُشتِش دونیم
رحمتِ اُو عام و اخلاقِش عظیم

وہ پاک ذات جسکی انگلی کے اشارے سے چاند دوٹکڑے ہوگیا
کیا یہ معلوم نہیں وہ سب کے لیئے رحمت تھے{ اور انکا لقب ہی رحمت اللعالمین تھا}
ان کے اخلاق سب سے اعلی تھے

اَز مقامِ اُو اگر دُور ایستی
اَز میانِ مَعشرِ ما نیستی

اگر تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام سے دور رہا
تو جان لے کہ تُو پھر ہماری جماعت میں سے نہ ہوگا

"رموزِ بیخودی" علامہ محمد اقبال رح

قلبِ مؤمن رَا کِتابِش قوّت اَست


قلبِ مؤمن رَا کِتابِش قوّت اَست
حِکمتِش حَبلُ الوریدِ مِلّت اَست

{رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم } جو کتاب لائے{ یعنی قرآنِ مجید} وہ مومن کے دل کے لیئے
قوت و استحکام کا سامان ہے
جو حکیمانہ ارشادات {حدیث نبوی } حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر جاری ہوئے
انہیں ملت کی زندگی میں شہ رگ کی حیثیت حاصل ہے

دامَنِش اَز دَست دادَن ، مُردَن اَست
چوں گُل اَز بادِ خزاں اَفسُردن اَست

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو ہاتھ سے جاتے دینا موت ہے
جس طرح فصلِ خزاں کی ہوا پھول کے لیئے افسردگی کا باعث ہے

زندگی قوم اَز دمَ اُو یافت اَست
ایں سَحَر اَز آفتابِش تافت اَست

قوم نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دم سے زندگی پائی
یہ صبح صرف اسی آفتاب کی روشنی سے منور ہوئی{ جلوہ ریز ہوئی}

"رموزِ بیخودی" علامہ محمد اقبال رح

نَبینی خَیر اَز آں مردِ فرو دَست


نَبینی خَیر اَز آں مردِ فرو دَست
کہ بَر مَن تُہمتِ شعر و سُخن بَست

اس کمینے آدمی سے خیر کی امید مت رکھ،
کہ جس نے مجھ پر شعر وسخن{شوقِ فضول} کی تہمت لگائی{ میں نے تو شاعری کو
پیغامِ حقیقت پہنچانے کا ذریعہ بنایا ہے}

بکوے دِلبراں کارے نَدارَم
دلِ زارے غمِ یارے نَدارَم

میرا معشوقوں کی گلی سے کوئی کام نہیں
میں { ان عامیانہ شاعروں } کی طرح نحیف و نزار دل نہیں رکھتا،اور نہ ہی مجھے کسی
دوست کا غم ہے{ میری شاعری عشق و محبت کے روایاتی خیالات سے پاک ہے}

نہ خاکِ مَن غبارِ رہگُذارے
نہ دَر خاکَم دلِ بے اختیارے

{ عام شاعروں کی طرح} میری مٹی کسی کے راستہ کی غبار نہیں ہے{ میں کوچہ محبوب کے
چکر نہیں لگاتا}
اور نہ میری مٹی میں {غمِ محبوب} کے لیئے تڑپنے والا دل ہے

بہ جبریلِ اَمیں ھَم داستانَم
رَقیب و قاصِد و دَرباں ندانَم

میں تو خدا کے مقرب فرشتے جبریل امین کا ہم زبان ہوں{ پاکیزہ شاعری کرتا ہوں}
{اور عام شاعروں کی طرح} رقیب، قاصد، درباں جیسی اصطلاحات نہیں جانتا
{جو کہ عام عشقیہ شاعری میں ہوتی ہے

مَرا با فقرِ سامانِ کلیم اَست
فَرِ شاہِنشَہی زیرِ گَلیم است

{میری شاعری میں} فقرِ موسٰی کلیم اللہ علیہ السلام کی عظمت ساز و سامان کے ساتھ
موجود ہے
{ اس شاعری کو پڑھنے کے بعد} تجھے دنیا کی بادشاہی کی شان و شوکت اِس بوریا نشین
کے قدموں تلے نظر آئے گی { اور تجھے خدا سے ہمکلام ہونے کے راز بھی بتائے گی}

"زبوِ عجم" علامہ محمد اقبال رح

اگر زیرِ ز خود گِیری زَبَر شَو

اگر زیرِ ز خود گِیری زَبَر شَو
خُدا خواہی بَخود نزدیک تَر شَو

اگر تو کمزور اور بے زور ہے تو خود پر قابو پاکر{ اپنی معرفت حاصل کرکے} طاقتور بن جا
اور اگر تو خدا کا قرب چاہتا ہے تو پہلے اپنی پہچان کر{ خودی کی معرفت خدا کی معرفت ہے}

بہ تسخیرِ خود اَفتادی اگر طاق
تَرا آساں شُوَد تسخیرِ آفاق

اگر تو اپنی ذات کی تسخیر کرنے میں کامل ہوجائے
تو تیرے لیئے آفاق کی فتح بھی آسان ہوجائے گی

علامہ رح از " زبورِ عجم"

دین و دانش رَا غُلام اَرزاں دَہد


دین و دانش رَا غُلام اَرزاں دَہد
تا بدن رَا زندہ دارَد جاں دَہد

دین اور دانش کو غلام سستے داموں میں فروخت کرتے ہیں
اپنے بدن کو زندہ رکھنے کے لیئے اپنی جان بھی دے دیتا ہے

گرچہ بر لب ہائے اُو نامِ خداست
قبلۂِ اُو طاقتِ فرمانرواست

اگرچہ اس کے ہونٹوں پر خدا کا نام ہوتا ہے
لیکن اس کا اصل کعبہ تو اس کے آقاوں اور حکمرانوں کی طاقت ہوتا ہے{ وہ اپنے حکمرانوں
کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے}

طاقتے نامِش دُروغ با فُروغ
اَز بطونِ او نزایَد جُز دُروغ

{فرمانرواں کی طاقت} ایک ایسی طاقت ہے جو روشن یا ترقی پذیر جھوٹ ہوتا ہے
اس کے بطن سے سوائے جھوٹ کے اور کچھ پیدا نہیں ہوتا

ایں صَنم تا سجدہ اِش کردی خُداست
چوں یَکے اندر قیام آئی فناست

{ تیرے حاکموں کے اقتدار کا یہ بت} اس وقت تک تیرا خدا ہے جب تک تو اسے سجدہ کرتا
رہے گا
اگر ایک دفعہ بھی اس کے مقابلے میں {ثابت قدمی} سے کھڑا ہوجائے تو یہ بت پاش پاش ہوجائے گا

آں خدا نانِ دَہد جانِ دَہد
ایں خدا جانِ بَرَد نانِ دَہد

ایک خدا تو وہ ہے جو ہمیں جو ہمیں رزق اور زندگی عطا کرتا ہے { یہ وہ خدا ہے جو وجودِ مطلق ہے}
اور یہ خدا {حاکموں کی طاقت کا خدا} روٹی کے بدلے زندگی لے جاتا ہے

" زبورِ عجم" علامہ محمد اقبال رح

حکمتِ اشیاء فرنگی زاد نیست


حکمتِ اشیاء فرنگی زاد نیست
اصلِ اُو جُز لذّتِ ایجاد نیست

اشیاء کی ماہیت جاننے کا آغاز فرنگیوں{یورپین} سے نہیں ہوا
اس کی بنیاد صرف نئی دریافت کی لذت ہے

نیک اگر بینی مسلماں زادہ اَست
ایں گُہر اَز دستِ ما افتادہ اَست

اگر تو غور سے دیکھے تو یہ{ علم و ہنر،دانش و حکمت} مسلمانوں کی پیدا کردہ ہے
یہ موتی ہمارے ہی ہاتھ سے گرا ہے

چوں عرب اندر اَرُوپا پَر گُشاد
علم و حکمت را بِنا دیگر نہاد

جب عربوں نے یورپ میں بھی اپنے جھنڈے گاڑ دیئے
تو انہوں نے وہاں نئے انداز سے علم و حکمت کی بنیاد رکھی

دانہ آں صحرا نشیناں کاشتَند
حاصلِش افرنگیاں برداشتَند

یہ بیج{ علم و حکمت}تو عرب صحرا نشینوں نے بویا تھا
لیکن اسکا حاصل اہل یورپ نے اٹھالیا { اکٹھا کیا}

علامہ رح " از پس چہ باید کرد"

فَرنگ آئینِ جمہوری نِہاد ست


فَرنگ آئینِ جمہوری نِہاد ست
رَسن اَز گردنِ دیوے گُشادست

یورپ نے جمہوری آئین کی بنیاد رکھ کر
گویا دیو کے گلے میں رسی کھول دی ہے
{مغربی طرزِ جمہوریت جہاں اکثریت کی رائے تسلیم کی جاتی ہے،خواہ وہ غلط ہی کیوں نہ ہو
جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس سے ابلیسی افکار جڑ پکڑ رہے ہیں}

نَوا بے زخمہ و سازے ندارَد
ابے طیارہ پروازے ندارَد

{ان جمہوریت نواز} لوگوں کی نوا{ نغمہ} بغیر مضراب کے ہے اور اس ساز میں موسیقیت نہیں ہے۔
ان کی پرواز طیارے کے بغیر ہے {ان میں مادہ پرستی تو ہے لیکن روحانیت موجود نہیں}

ز باغِش کِشت ویرانے نکوتر
ز شہرِ او بیابانے نکوتر

اس { جمہوریت} کے باغ سے ویران کھیتی بہتر ہے
اور اس کے شہر سے بیابان اور ویرانہ اچھا ہے

چو رہزن کاروانے دَر تگ و تاز
شکمہا بِہر نانِ دَر تگ و تاز

چور کی طرح کاروان ہی دوڑ دھوپ میں مصروف ہے{ لوٹ مار کررہا ہے}
سب لوگ روح کو بھول کر شکم پرستی کی طرف ماہل ہیں

رواں خوابید و تَن بیدار گَردید
ہُنر با دین و دانش خوار گَردید

روح سوگئی ہے اور جسم جاگ رہے ہیں
اس { بے روح دنیا میں} ہنر،دین و دانش ذلیل و خوار ہوگئے ہیں

خرد جُز کافرے کافر گری نیست
فنِ افرنگ جُز مَردُم دری نیست

خرد{عقل} سوائے کافری کے اور دوسروں کو کافر بنانے کو سوا اور کچھ نہیں{ دنیا نے جمہوریت کی آڑ میں دین کو بھلا دیا ہے}
فرنگیوں کا فن سوائے آدمیوں کو پھاڑنے کے{ یعنی لوگوں کو ان کی تہذیب و ثقافت سے دور
کرنے کے} سوا کچھ نہیں

گروہے را گروہے دَر کَمین اَست
خدایش یار اگر کارِش چُنیں است

ایک گروہ کی گھات میں {حملہ آور ہونے کے لیئے} دوسرا گروہ مصروف ہے{ ہر طرف طبقاتی اور گروہی استحصال ہورہا ہے}
اگر ان کے کام ایسے ہی ہے تو بس ان کا خدا ہی حافظ ہے

ز مَن دِہ اہل مغرب را پیامے
کہ جمہور است تیغِ بے نیامے

میری طرف سے اہل مغرب کو یہ پیغام دو
کہ جمہوریت ایک ننگی تلوار ہے

چہ شمشیرے کہ جانہا می ستاند
تمیزِ مُسلم و کافر ندانَد

یہ {جمہوریت} کیسی تلوار ہے جو قتل کرتی ہے
اور اس میں کافر اور مسلمان کی کوئی تمیز نہیں

نَمانَد دَر غلافِ خود زمانے
بَرَد جانِ خود و جانِ جہانے

یہ ایک لمحہ کے لیئے بھی اپنی نیام میں نہیں رہتی
یہ اپنی جان اور جہان کی جان کی دشمن ہے{ جمہوریت کی تلوار چلانے والا خود بھی اس
تلوار سے محفوظ نہیں ہوتا}

"زبورِ عجم" علامہ محمد اقبال رح

ز شامِ ما بَروں آوَر سحر را


ز شامِ ما بَروں آوَر سحر را
بہ قرآن باز خواں اہل نظر را

{اے بیٹی} تو ہماری شام سے صبح کو باہر لا{ یعنی ہماری زبوں حالی کو عروج سے بدل دے}
اہل بصیرت {لوگوں} کو قرآن کی طرف بلا

تُو می دانی کہ سوزِ قرآتِ تُو
دگرگوں کَرد تقدیرِ عمر را

تو جانتی ہے کہ تیری قرآت کی سوز و گداز نے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تقدیر کو بدل ڈالی تھی

نوٹ: یہ شعر اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے
اپنی بہن اور بہنوئی کی پٹائی کردی جب وہ اسلام لاچکے تھے اور قرآن پاک کی تعلیم
حاصل کررہے تھے، جب حضرت عمر نے وہ آیاتیں دیکھیں تو ان کا دل پسیج
گیا اور انہوں نے اسی وقت ایمان لایا

"ارمغانِ حجاز"{فارسی} علامہ محمد اقبال رح

ہَر زماں اَندر تلاشِ ساز و بَرگ


ہَر زماں اَندر تلاشِ ساز و بَرگ
کارِ اُو فکرِ مَعاش و تُرسِ مَرگ

{ایسی قوم} جو ہر لمحہ بس ساز وسامان{روپے پیسے} ہی کے چکر میں رہتی ہے
اس کا کام روزی کی فکر اور موت سے ڈرنا ہے

مُنعمانِ اُو بَخیل و عیش دوست
غافل اَز مغزاند و اندر بَندِ پوست

اس قسم کے دولت مند کنجوس لیکن عیاش ہوتے ہیں
وہ {رسوم} کے چھلکے میں گرفتار اور {حقیقت کے} مغز سے غافل ہوتے ہیں

قوتِ فرمانروا معبودِ اُو
دَر زیانِ دین و ایمان سُودِ اُو

حکمران کی قوت ان کی معبود ہے
وہ دین ایمان کے نقصان میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں

اَز حدِ امروز خود بیروں نَجِست
روزگارِش نقشِ یَک فردا نَبَست

وہ اپنے امروز{آج} کے حد سے باہر نہیں نکلتی
اس کی زندگی میں ایک کل کا نقش بھی ثبت نہیں ہوتا

اَز نیاگاں دفترے اَندر بغل
اَلامان اَز گفتہ ہائے بے عمل

وہ اپنے اسلاف { کے ناموں} کا دفتر بغل میں دبائے پھرتی ہیں
خدا کی پناہ، اس کی بے عمل باتوں سے{ اس کے پاس باتیں ہی باتیں ہیں عمل کوئی نہیں}

دینِ اُو عہد وفا بَستَن بہ غیر
یعنی از خِشتِ حَرَم تعمیرِ دَیر

اسکا دین غیروں سے پیمانِ وفا باندھنا ہے
وہ گویا حرم کو{ گرا کر اس} کی اینٹ سے بتکدے کی تعمیر کرتا ہے

آہ قومے دِل ز حَق پَرداختہ
مُرد و مَرگِ خویش را نَشُناختہ

افسوس ہے ایسی قوم پر جس نے حق سے دل ہٹالیا
جو مرچکی ہے مگر اپنی اس موت کو پہچانتی نہیں

"پس چہ باید کرد" علامہ محمد اقبال رح

مَرا داد ایں خرد پَروَر جنونِ


مَرا داد ایں خرد پَروَر جنونِ
نگاہِ مادرِ پاک اندرونِ

مجھے یہ خرد پرور{عقل کی پرورش } کرنے والا جنون دیا
ایک پاک باطن والی ماں کی نگاہ نے

ز مکتب چشم و دل نتواں گِرِفتَن
کہ مکتب نَیست جُز سحر و فسونِ

مکتب سے آنکھ اور دل نہیں لیئے جاتے{نہیں مل سکتے}
کیونکہ مکتب سحر و فسوں {شعبدہ بازی }کے سوا کچھ نہیں { درسگاوں میں روحانیت سے عاری
تعلیم دی جاتی ہے} یہاں درسگاوں سے مراد عصری تعلیمی ادارے ہیں

" ارمغانِ حجاز" علامہ محمد اقبال رح

مَرا ذوقِ خودی چوں اَنگبین اَست


مَرا ذوقِ خودی چوں اَنگبین اَست
چہ گویَم وارداتِ مَن ہَمین اَست

میرے لیئے خودی کا کیف و سرور شہد کی طرح لذیذ ہے
میں کیا کہوں کہ میری {وارداتِ قلب} ہی ایسی ہے

نَخستین کیف اُو را آزمُودَم
دگر بَر خاوَراں قسمت نَمُودَم

{اس خودی} کے کیف کو پہلے میں نے خود آزمایا
پھر اہل مشرق کو بتایا کہ وہ بھی خودی سے آشنا ہوکر اپنی تقدیر بدل لیں۔

" زبورِ عجم" علامہ محمد اقبال رح

علمِ حق غیر اَز شریعت ہَیچ نیست


علمِ حق غیر اَز شریعت ہَیچ نیست
اصلِ سنّت جُز مُحبت ہَیچ نیست

علمِ حق شریعت کے سوا کچھ نہیں،شریعت وہی ہے جو اللہ تعالٰی کے حکم سے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں تک پہنچائی

اور تجھے معلوم ہے کہ سنت کی اصلیت کیا ہے؟ محض اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کے حکم و عمل سے محبت{ جوشخص اللہ تعالٰی کی مقرر کی ہوئی شریعت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے لیئے جذب و کشش اپنے اندر نہیں رکھتا، اس کی زبان سے محبت کا
دعویٰ جھوٹا سمجھا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا درجہ اتنا بلند ہے
کہ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں فرمایا" رسول کی پیروی خدا کی محبت کا وسیلہ ہے"

فرد رَا شرع اَست مرقاتِ یقیں
پُختہ تَر از وے مقاماتِ یقیں

فرد کے لیئے شریعت ایک ایسا زینہ{ سیڑھی} ہے جو اسے یقین کی بلندی پر پہنچا دے

شریعت ہی کے پیروی سے یقین کے مقامات پختہ اور مستحکم ہوتے ہیں

"رموزِ بیخودی" علامہ محمد اقبال رح

بر سرِ کُفر و دیں فشاں رحمتِ عام خویش رَا


بر سرِ کُفر و دیں فشاں رحمتِ عام خویش رَا
بندِ نقاب بَر گُشا ماہِ تمام خویش رَا

اے خدا! اہل کفر اور اہل ایمان دونوں پر اپنی رحمت عام تچھاور کر
اپنے چودھویں کے چاند جیسے چہرے سے نقاب ہٹادے
{کیونکہ تیری رحمت تو ہر ایک کے لیئے ہیں،جب تیرے چہرے کی انوار و تجلیات مومن
دیکھے گا تو اس کا ایمان اور مضبوط ہوگا، اور جب اسے کافر دیکھیں گے تو یقینا تجھ پر
ایمان لائیں گے}

زمزمۂِ کُہن سراے، گردشِ بادہ تیز کُن
باز بہ بزمِ ما نگر ، آتشِ جام خویش را

{شاعر خدا سے التجا کرتا ہے} پرانا گیت پر سے گا اور شراب کی گردش کو تیز کردے
{کیونکہ موجودہ زمانے نے لوگوں کو عشقِ خدا سے بیگانہ کردیا ہے}
پھر ہماری محفل میں اپنے پیالے کی آگ {شراب} کا اثر دیکھ
{پرانے گیت اور شراب سے مراد اپنے اسلاف کی اقدار ہیں}

دامِ ز گیسواں بدوش زحمتِ گُلستاں بَری
صَیدِ چِرا نَمی کُنی طایرِ بامِ خویش را

تو اپنی زلفوں کے جال کندھوں پر پھیلا کر شکار کے لیئے باغ میں جانے کی تکلیف کررہا ہے
تو اپنے مکان کی چھت پر بیٹھے ہوئے پرندے کا شکار کیوں نہیں کرتا
{تیرے عاشق کب سے تیری نگاہِ ناز کا تیر کھانے کو تیار بیٹھے ہیں}

ریگِ عراق منتظر ، کِشتِ حجاز تشنہ کام
خونِ حُسین باز دِہ کوفہ و شامِ خویش را

عراق کی ریت انتظار کررہی ہے اور حجاز{مکہ مدینہ} کے کھیت پیاسے ہیں
کوفہ اور شام کو پھر سے خونِ حسین رضی اللہ عنہ کی ضرورت ہے { مراد حق کی آواز
بلند کرنے والی کی ضرورت ہے

"زبورِ عجم" علامہ محمد اقبال رح

آں دِگر مرگ! انتہاے راہِ شوق


آں دِگر مرگ! انتہاے راہِ شوق
آخریں تکبیر دَر جَنگاہِ شوق

وہ دوسری موت کیا ہے؟وہ راہِ شوق کی انتہا ہے
اور شوق کے ہنگامہ میں آخری تکبیر ہے{جہاد میں اللہ اکبر کہہ کر جان کی قربانی دینا عشق ومحبت کی آخری منزل ہے}

گرچہ ہَر مَرگ اَست بَر مؤمن شَکر
مَرگِ پورِ مُرتضٰی چیزے دِگر

اگرچہ مردِ مومن کے لیئے ہر موت شکر{ چینی} کی طرح میٹھی ہے
لیکن حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ عنہ کے فرزند{ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ جنہوں
نے باطل قوت سے ٹکرا کرشہادت پائی} کی موت کچھ اور ہی چیز ہے

"جاوید نامہ" علامہ محمد اقبال رح

ز عشق دَرسِ عمل گِیر و ہَر چہ خُواہی کُن

ز عشق دَرسِ عمل گِیر و ہَر چہ خُواہی کُن
کہ عِشق جوہرِ ہوش اَست و جان فَرہنگ اَست

عشق سے عمل کا سبق لے اور پھر جو چاہے کر
کیونکہ عشق سمجھ کا جوہر ہے اور عقل کی روح{ جان} ہے

بُلند تَر ز سپہر اَست منزِلِ مَن و تُو
براہِ قافلہ خورشید میلِ فَرسنگ اَست

ہماری{میری اور تمہاری} منزل آسمان سے بھی زیادہ بلند{آگے} ہے
سورج{ ہمارے} قافلے کی راہ میں کوس کے پہلے میل پر ہے { سورج تو ایک سنگِ میل ہے}

"پیامِ مشرق" علامہ محمد اقبال رح

آں حرفِ دِل فروز کہ راز ہَست و راز نیست


آں حرفِ دِل فروز کہ راز ہَست و راز نیست
مَن فاش گویَمَت کہ شُنید اَز کُجا شُنید

وہ دل چمکانے والا حرف جو راز ہے اور نہیں بھی
میں تمہیں کھول کر بتاتا ہوں کہ اسے کس سے سنا؟ اور کہا سے سنا؟

دُزدید ز آسماں و بہ گُل گُفت شَبنَمِش
بُلبُل ز گُل شُنید و ز بُلبُل صَبا شُنید

شبنم نے اس حرف کو آسمان سے چرایا اور پھول کو بتایا
بلبل نے پھول سے سنا اور بلبل سے صبا نے { پھر صبا نے اسے عام کردیا}
{نوٹ: "شبنم" علامہ رح کی شاعری میں فیضانِ سماوی کی مظہر ہے کیونکہ وہ اوپر سے آتی ہے۔ بوساطتِ شبنم آسمان سے آئی ہے}

"پیامِ مشرق" علامہ محمد اقبال رح

بُگذر اَز عقل و دَر آویز بَموجِ یَمِ عشق


بُگذر اَز عقل و دَر آویز بَموجِ یَمِ عشق
کہ دَر آں جوے تَنک مایہ گُہر پیدا نیست

عقل سے گزرجا اور عشق کے سمندر کی لہروں میں ہاتھ پاوں مار{عقل کی مدد سے محبوب حقیقی
کا دیدار نہیں کیا جاسکتا}
کیونکہ اس{ عقل} کی کم گہری ندی میں موتی نہیں پایا جاتا

آنچہ مقصودِ تگ و تاز خیالِ مَن و تُست
ہَست دَر دیدہ و مانندِ نظر پیدا نیست

{ وہ اللہ پاک کی ذات} جس کے لیئے میرے اور تیرے خیال کی یہ ساری بھاگ دوڑ لگی ہوئی ہے
وہ آنکھ میں ہے مگر نظر کی طرح دکھائی نہیں دیتا { انسان خدا کی ہستی کو دل میں محسوس کرتا
ہے لیکن آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا}

"پیامِ مشرق" علامہ محمد اقبال رح

عشق اَست کہ دَر جانِت ہر کیفیت اَنگیزَد


عشق اَست کہ دَر جانِت ہر کیفیت اَنگیزَد
اَز تاب و تبِ رومی تا حیرتِ فارابی

{یہ} عشق ہی ہے جو تیری روح میں ہر کیفیت پیدا کرتا ہے
رومی کے جوش و تڑپ سے لیکر فارابی کی حیرت تک
{ رومی مسلک عشق کے علمبردار ہیں اور عشق کا ثمرہ تب و تاب ہے،فارابی مذہب عقل کا
نماہندہ ہے اور عقل کا نتیجہ حیرت و استعجاب ہے}

اِیں حَرفِ نشاط آور می گویَم و می رَقصَم
اَز عشق دِل آسایَد با اِیں ہَمہ بیتابی

میں اس نشاط آور{ خوشی لانے والا} حرف کا ورد کرتا ہوں اور ناچتا ہوں
اس تمام بے تابی کے باوجود دل عشق ہی سے چین{سکون} پاتا ہے

ہَر معنیِ پیچیدہ دَر حَرف نَمی گَنجَد
یَک لحظہ بَدِل دَر شَو شاید کہ تُو دَریابی

حرف میں ہر پیچیدہ معانی نہیں سماتا
ایک پل کے لیئے اپنے دل کے اندر نظر ڈال شاید تو اسے پا جائے { اپنے من میں ڈوب کر پا جا
سراغِ زندگی}

"پیامِ مشرق" علامہ محمد اقبال رح

اے مسلماں اندریں دیرِ کُہن


اے مسلماں اندریں دیرِ کُہن
تا کُجا باشی بہ بَندِ اھرمَن

اے مسلمان تو اس پرانے بت خانے {دنیا} میں
کب تک اھرمن {شیطان} کی قید میں رہے گا

جُہد با توفیق و لذت دَر طلب
کَس نیاید بے نیازِ نَیم شَب

با توفیق جہد{اللہ تعالٰی کی مہربانی اور ہدایت} اور لذتِ طلب
دونوں گریہ نیم شبی{ آدھی رات کے رونے} کے بغیر حاصل نہیں ہوتے

"پس چہ باید کرد" علامہ محمد اقبال رح

بندۂِ حق وارثِ پیغمبراں


بندۂِ حق وارثِ پیغمبراں
اُو نَگَنجَد دَر جہانِ دیگراں

بندہ حق{خدا کا خاص بندہ} پیغمبروں کا وارث ہے
وہ دوسروں کی دنیا میں نہیں سماتا { یعنی اپنا جہاں خود پیدا کرتا ہے}

تا جھانے دیگرے پیدا کُنَد
ایں جہانِ کُہنہ رَا بَرہَم زَنَد

تاکہ وہ ایک نئی دنیا پیدا کرے
{وہ} اس قدیم دنیا کو درہم برہم کرکے رکھ دیتا ہے

زِندہ مَرد اَز غیرِ حق دارد فراغ
از خودی اندر وجودِ اُو چراغ

خدا کا خاص بندہ اللہ کے سوا باقی تمام کائنات سے خود کو دور رکھتا ہے
اس کے وجود کے اندر خودی کا چراغ روشن ہوتا ہے

"پس چہ باید کرد" علامہ محمد اقبال رح

آہ از قومے کہ چَشم اَز خویش بَست


آہ از قومے کہ چَشم اَز خویش بَست
دل بہ غیر اﷲ داد ، از خود گسست

افسوس ہے اس قوم پر جس نے اپنے آپ سے آنکھیں بند کرلیں
اور غیراللہ کو دل دے دیا، اور اپنی ذات کھو بیٹھی

علامہ رح

چہ عجب اگر دو سلطاں بہ ولایتے نَگَنجَد

چہ عجب اگر دو سلطاں بہ ولایتے نَگَنجَد
عجب ایں کہ می نَگَنجَد بہ دوعالمے فقیرے

یہ بات عجیب نہیں کہ ایک مملکت میں دو بادشاہ نہیں سماسکتے
عجیب یہ ہے کہ ایک فقیر دونوں جہانوں میں نہیں سماسکتا {دراصل صاحبِ فقر کے لیئے
دونوں جہانوں کی وسعت بھی کم ہوتی ہے

"زبورِ عجم " علامہ محمد اقبال رح

پارسی اَز رفعتِ اندیشہ اَم

پارسی اَز رفعتِ اندیشہ اَم
دَر خورد با فطرتِ اندیشہ اَم

میرے افکار بہت بلند ہیں اور فارسی {زبان} کو
ان افکار کی فطرت سے بہت مناسبت ہے

خُردہ بَر مینا مَگیر اے ہوشمند
دل بذوقِ خُردہِ مینا بِہ بَند

اے صاحبِ عقل و دانش تو صراحی پر اعتراض نہ کر { میری شاعری کی فنی کوتاہیوں کو نہ دیکھ}
تو صراحی میں موجود شراب کے ذوق سے دلبستگی پیدا کر { یعنی اپنے دل کو شراب کی لذت سے وابستہ کرلے، یعنی اس شاعری میں جو پیغام ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کر}

"اسرارِ خودی" علامہ محمد اقبال رح

تفریقِ ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود

تفریقِ ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم
مکے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمیعتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم

اہل یورپ نے جو جمیعت اقوام بنائی ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ حسنِ تدبیر سے قوموں
اور ملتوں میں تفرقہ ڈالا جائے اور انہیں ایک دوسرے سے الگ الگ کردیا جائے
اسلام کا مقصود صرف یہ تھا کہ پوری انسانی دنیا ایک رشتے میں پروئی جائے
اور متحد ہوجائے
مکہ معظمہ نے جنیوا کی سرزمین کو یہ پیغام دیا کہ تمہارے ہاں قوموں کی جو جمیعت بنی
ہوئی ہے۔یہ اصل مقصود نہیں، اصل مقصود یہ ہے کہ انسانوں کو اکٹھا کرکے ان میں برادرانہ
میل جول بڑھایا جائے

علامہ رح

شبِ تاریک و راہِ پیچ پیچ و بے یقیں راہی

شبِ تاریک و راہِ پیچ پیچ و بے یقیں راہی
دلیلِ کارواں را مشکل اندر مشکل افتاد اَست

اندھیری رات ہے اور راستہ پیچیدہ ہے اور اس راستہ پر چلنے والا{ دورِ حاضر کا مسلمان}
یقین کی دولت سے محروم ہے
امیرِ کارواں کے لیئے ایسے بے یقین مسافر کو پیچیدہ راستوں سے منزل مقصود تک لے جانا
بہت مشکل ہے

"زبورِ عجم" علامہ محمد اقبال رح

بِدِہ آں دل کہ مَستی ہاے اُو اَز بادۂِ خویش اَست

بِدِہ آں دل کہ مَستی ہاے اُو اَز بادۂِ خویش اَست
بِگیر آں دل کہ از خود رفتہ و بیگانہ اندیش اَست

اے خدا! مجھے ایسا دل عطا کردے کہ جس کی مستی {مدہوشی} اس کی اپنی ہی شراب سے
{ تیارکردہ} شراب سے ہو
مجھ سے وہ دل واپس لے لے جو مدہوش بے خبر اور اپنی بجائے غیروں کے بارے میں سوچتا ہو

بِدِہ آں دل بِدِہ آں دل کہ گیتی را فرا گیرَد
بِگیر ایں دل بِگیر ایں دل کہ دَر بندِ کم و بیش اَست

{مجھے} وہ دل عطا کردے وہ دل عطا کردے جو اس کائنات کو اپنی گرفت میں لے لے
{ اور مجھ سے} وہ دل واپس لے لے وہ دل واپس لے لے جو دنیاوی مفاد کے چکر میں
پھنسا ہوا ہے

"زبور عجم " علامہ محمد اقبال رح

الفاظ کے معنی

بدہ : عطا کر
بادہِ خویش : اپنی تیارکردہ شراب
خود رفتہ: مدہوش
گیتی: دنیا
بند: قید
کم و بیش: کم اور زیادہ، نفع نقصان

یقینِ مومنے دارَد گُمانِ کافرے دارَد

یقینِ مومنے دارَد گُمانِ کافرے دارَد
چہ تدبیر اے مسلماناں کہ کارَم با دِل اَفتاد اَست

{ دورِ جدید کی تہذیب، ثقافت اور علم و دانش کی وجہ سے} میرا دل کبھی مومن کی طرح
پختہ ایمان رکھتا ہے اور کبھی کافر کی طرح بے یقینی کا شکار ہوتا ہے { یعنی متلون مزاج ہے}

اے مسلمانوں {مجھے بتاو} میں کیا تدبیر کروں کہ بے یقینی کی حالت سے نکل کر تمہارے
جیسا بن جاوں، کیونکہ میرا واسطہ ایسے دل سے پڑا ہے جو بے یقینی کا شکار ہے

"زبورِ عجم" علامہ محمد اقبال رح

 
ترجمہ کردہ : محمد بلال اعظم