روزانہ کی بنیاد پر ای میل کا حصول

Thursday, November 21, 2013

فرقی ننہد عاشق در کعبہ و بتخانہ

فرقی ننہد عاشق در کعبہ و بتخانہ
این جلوت جانانہ آن خلوت جانانہ

منظوم ترجمہ
عاشق کے لیے یکساں کعبہ ہو کہ بت خانہ
یہ جلوتِ جانانہ، وہ خلوتِ جانانہ

از بزم جہان خوشتر از حور جنان خوشتر
یک ھمدم فرزانہ وز بادہ دو پیمانہ

منظوم ترجمہ
بہتر ہے زمانے سے فردوس سے خوش تر ہے
اک ساغرِ مے ساقی اک ہمدمِ فرزانہ

ہر کس نگہی دارد ہر کس سخنی دارد
در بزم تو می خیزد افسانہ ز افسانہ

منظوم ترجمہ
ہر اک کی نگاہ تجھ پر ہر اک کو سخن تجھ سے
پیدا تری محفل میں افسانے سے افسانہ

این کیست کہ بر دلہا آوردہ شبیخونی
صد شہر تمنا را یغما زدہ ترکانہ

منظوم ترجمہ
یہ کون سے قاتل نے خوں گشتہ کیا دل کو
اک شہرِ تمنا کو غارت کیا ترکانہ

در دشت جنون من جبریل زبون صیدی
یزدان بہ کمند آور ای ہمت مردانہ

منظوم ترجمہ
جبریل تو ادنی سا ہے صیدِ زبوں میرا
یزداں تہِ دام آئے اے ہمتِ مردانہ

اقبال بہ منبر زد رازی کہ نباید گفت
نا پختہ برون آمد از خلوتِ میخانہ

منظوم ترجمہ
اقبال نے منبر پہ ہر رازِ نہاں کھولا
نا پختہ ہی اٹھ آیا از خلوتِ میخانہ 


Wednesday, November 20, 2013

از کلیمے سبق آموز کہ داناے فَرَنگ

از کلیمے سبق آموز کہ داناے فَرَنگ
جگرِ بحر شگافید و بہ سینا نَرَسید

کسی کلیم { اللہ سے کلام کرنے والے،مراد اہل اللہ} سے وہ سبق سیکھ { جو تجھے معرفتِ
الہی سے آشنا کردے} کیونکہ یورپ کے دانشوروں اور سائنسدانوں نے سمندر کی گہرائیوں
کو جانچھ لیا لیکن وہ وادی سینا { جہاں موسی علیہ السلام نے خدا سے ہمکلامی کا شرف
حاصل کیا} تک نہیں پہنچ سکے
{اہل یورپ کائنات کے راز تو جانتے ہیں لیکن خالقِ کائنات کی معرفت سے بے بہرہ ہیں}

"زبورِ عجم " علامہ محمد اقبال رح


سنگ می باش و دَرین کارگہِ شیشہ گُزر

سنگ می باش و دَرین کارگہِ شیشہ گُزر
واے سنگِ کہ صنم گَشت و بہ مینا نَرَسید

پتھر بن کر اس شیشے کے کارخانے {دنیا} سے گزر جا
افسوس ہے اس پتھر پر جو بت تو بن گیا { نہ بول سکتا ہے اور نہ ہی سن سکتا ہے} لیکن
صراحی نہ بن سکا جس میں کم از کم شراب ڈال کر مے خواروں کی پلائی جاتی{ یعنی بے کار
شئے سے کارآمد چیز بہتر ہے}

کُہنہ را دَر شِکن و باز بہ تعمیرِ خرام
ہر کہ دَر ورطۂ ’’لا‘‘ ماند بہ ’’الا‘ نرسید

پرانی چیزوں کو توڑ کر از سرِ نو تعمیر کا عمل شروع کردے
جو کوئی بھی "لا" { لاالہ یعنی کوئی معبود نہیں} کے بھنور میں پھنس گیا وہ "الا" { الا اللہ
یعنی اللہ معبود ہے} کے ساحل تک نہ پہنچا

{ یعنی پہلے تمام باطل معبودوں کی نفی کرکے ایک خدا کی ربوبیت کو تسلیم کرنا ہی
مقصودِ فطرت ہے}

"زبور عجم" علامہ محمد اقبال رح

Tuesday, November 19, 2013

کوہِ آتِش خیز کُن ایں کاہ را


کوہِ آتِش خیز کُن ایں کاہ را
ز آتشِ ما سوز غیر اللہ را

اس گھاس پھوس{ تنکے} کو آتش فشاں پہاڑ بنادے
ہماری آگ کو وہ تپش عطا کر کہ وہ ماسواء اللہ کو جلادے{ تیرے سوا ہر شئے کو جلادے}

رشتہِ وحدت چو قوم از دَست داد
صَد گرہ بر روے کارِ ما فَتاد

جب سے قوم نے وحدت کا رشتہ چھوڑا
ہمارے کام کے رشتے{ دھاگے } میں سینکڑوں گرہیں پڑ گئی

ما پریشان دَر جہاں چوں اَختریم
ہمدم و بیگانہ از یک دیگریم

ہم دنیا میں ستاروں کی طرح منتشر ہوکر رہ گئے
اگرچہ ہم ساتھی ہیں {ایک دوسرے کے پاس رہتے ہیں}لیکن ایک دوسرے سے ناآشنا{ اجنبی} ہیں

باز ایں اوراق را شیرازہ کُن
باز آئینِ محبت تازہ کُن

ان بکھرے ہوئے اوراق کی پھر شیرازہ بندی کردے{بندھ جانے کا سامان کردے}
پھر سے {وہی پہلے والا } محبت کا دستور تازہ کردے

باز ما را بَر ہَماں خدمت گمار
کارِ خود با عاشقانِ خود سپار

ہمیں پھر سے وہی خدمت سونپ دے،جس پر ہم پہلے مامور تھے
اپنا معاملہ اپنے عاشقوں کے سپرد کر

رہرواں را منزلِ تسلیم بخش
قوتِ ایمانِ ابراہیم بَخش

ہمیں چلنے والوں کو تسلیم کی منزل عطا کر
ابراہیم علیہ السلام کے ایمان کی قوت عطا کر

عشق را اَز شُغلِ لا آگاہ کُن
آشناے رمزِ الااللہ کُن

عشق کو پہلے "لا" کے وظیفہ سے آگاہ کر
پھر اسے "الااللہ" کی رمز{بھید} سے آشنا کر

"اسرارِ خودی" علامہ محمد اقبال رح

روح دَر تَن مُردہ اَز ضُعفِ یقیں



روح دَر تَن مُردہ اَز ضُعفِ یقیں
نااُمید اَز قوّتِ دینِ مبیں

ایمان کی کمزوری سے اس{ مسلمان} کی روح بدن میں مرچکی ہے
اور دینِ مبین اسلام کی قوت سے نا امید ہے

تُرک و ایران و عرب مستِ فرنگ
ہر کسے را دَر گلو شستِ فرنگ

تُرک ہو یا ایران یا عرب سب مسلم ممالک فرنگیوں کے {افکار} سے بری طرح سرمست ہیں

ہر ایک کے گلے میں فرنگیوں {انگریزوں} کا پھندا پڑا ہوا ہے

"جاوید نامہ" علامہ محمد اقبال رح

مَگسل اَز ختمِ رُسل ایّامِ خویش


مَگسل اَز ختمِ رُسل ایّامِ خویش
تکیہ کَم کُن بَر فن و بر گامِ خویش

{اے مسلمان} اپنی زندگی کا رشتہ/ناطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مت توڑ
اپنے علم وفن اور روش{رفتار} پر بھروسہ مت کر

فطرتِ مُسلم سراپا شفقت اَست
دَر جہاں دَست و زُبانِش رحمت اَست

مسلمان کی فطرت سر سے پاوں تک {سراسر} شفقت ہے
اس دنیا میں اس کا ہاتھ اور اسکی زبان رحمت کا پیغام ہے

آنکہ مہتاب اَز سرِ اُنگُشتِش دونیم
رحمتِ اُو عام و اخلاقِش عظیم

وہ پاک ذات جسکی انگلی کے اشارے سے چاند دوٹکڑے ہوگیا
کیا یہ معلوم نہیں وہ سب کے لیئے رحمت تھے{ اور انکا لقب ہی رحمت اللعالمین تھا}
ان کے اخلاق سب سے اعلی تھے

اَز مقامِ اُو اگر دُور ایستی
اَز میانِ مَعشرِ ما نیستی

اگر تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام سے دور رہا
تو جان لے کہ تُو پھر ہماری جماعت میں سے نہ ہوگا

"رموزِ بیخودی" علامہ محمد اقبال رح

قلبِ مؤمن رَا کِتابِش قوّت اَست


قلبِ مؤمن رَا کِتابِش قوّت اَست
حِکمتِش حَبلُ الوریدِ مِلّت اَست

{رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم } جو کتاب لائے{ یعنی قرآنِ مجید} وہ مومن کے دل کے لیئے
قوت و استحکام کا سامان ہے
جو حکیمانہ ارشادات {حدیث نبوی } حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر جاری ہوئے
انہیں ملت کی زندگی میں شہ رگ کی حیثیت حاصل ہے

دامَنِش اَز دَست دادَن ، مُردَن اَست
چوں گُل اَز بادِ خزاں اَفسُردن اَست

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو ہاتھ سے جاتے دینا موت ہے
جس طرح فصلِ خزاں کی ہوا پھول کے لیئے افسردگی کا باعث ہے

زندگی قوم اَز دمَ اُو یافت اَست
ایں سَحَر اَز آفتابِش تافت اَست

قوم نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دم سے زندگی پائی
یہ صبح صرف اسی آفتاب کی روشنی سے منور ہوئی{ جلوہ ریز ہوئی}

"رموزِ بیخودی" علامہ محمد اقبال رح

 
ترجمہ کردہ : محمد بلال اعظم