ہَر زماں اَندر تلاشِ ساز و بَرگ
کارِ اُو فکرِ مَعاش و تُرسِ مَرگ
{ایسی قوم} جو ہر لمحہ بس ساز وسامان{روپے پیسے} ہی کے چکر میں رہتی ہے
اس کا کام روزی کی فکر اور موت سے ڈرنا ہے
مُنعمانِ اُو بَخیل و عیش دوست
غافل اَز مغزاند و اندر بَندِ پوست
اس قسم کے دولت مند کنجوس لیکن عیاش ہوتے ہیں
وہ {رسوم} کے چھلکے میں گرفتار اور {حقیقت کے} مغز سے غافل ہوتے ہیں
قوتِ فرمانروا معبودِ اُو
دَر زیانِ دین و ایمان سُودِ اُو
حکمران کی قوت ان کی معبود ہے
وہ دین ایمان کے نقصان میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں
اَز حدِ امروز خود بیروں نَجِست
روزگارِش نقشِ یَک فردا نَبَست
وہ اپنے امروز{آج} کے حد سے باہر نہیں نکلتی
اس کی زندگی میں ایک کل کا نقش بھی ثبت نہیں ہوتا
اَز نیاگاں دفترے اَندر بغل
اَلامان اَز گفتہ ہائے بے عمل
وہ اپنے اسلاف { کے ناموں} کا دفتر بغل میں دبائے پھرتی ہیں
خدا کی پناہ، اس کی بے عمل باتوں سے{ اس کے پاس باتیں ہی باتیں ہیں عمل کوئی نہیں}
دینِ اُو عہد وفا بَستَن بہ غیر
یعنی از خِشتِ حَرَم تعمیرِ دَیر
اسکا دین غیروں سے پیمانِ وفا باندھنا ہے
وہ گویا حرم کو{ گرا کر اس} کی اینٹ سے بتکدے کی تعمیر کرتا ہے
آہ قومے دِل ز حَق پَرداختہ
مُرد و مَرگِ خویش را نَشُناختہ
افسوس ہے ایسی قوم پر جس نے حق سے دل ہٹالیا
جو مرچکی ہے مگر اپنی اس موت کو پہچانتی نہیں
"پس چہ باید کرد" علامہ محمد اقبال رح
ہَر زماں اَندر تلاشِ ساز و بَرگ
کارِ اُو فکرِ مَعاش و تُرسِ مَرگ
{ایسی قوم} جو ہر لمحہ بس ساز وسامان{روپے پیسے} ہی کے چکر میں رہتی ہے
اس کا کام روزی کی فکر اور موت سے ڈرنا ہے
مُنعمانِ اُو بَخیل و عیش دوست
غافل اَز مغزاند و اندر بَندِ پوست
اس قسم کے دولت مند کنجوس لیکن عیاش ہوتے ہیں
وہ {رسوم} کے چھلکے میں گرفتار اور {حقیقت کے} مغز سے غافل ہوتے ہیں
قوتِ فرمانروا معبودِ اُو
دَر زیانِ دین و ایمان سُودِ اُو
حکمران کی قوت ان کی معبود ہے
وہ دین ایمان کے نقصان میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں
اَز حدِ امروز خود بیروں نَجِست
روزگارِش نقشِ یَک فردا نَبَست
وہ اپنے امروز{آج} کے حد سے باہر نہیں نکلتی
اس کی زندگی میں ایک کل کا نقش بھی ثبت نہیں ہوتا
اَز نیاگاں دفترے اَندر بغل
اَلامان اَز گفتہ ہائے بے عمل
وہ اپنے اسلاف { کے ناموں} کا دفتر بغل میں دبائے پھرتی ہیں
خدا کی پناہ، اس کی بے عمل باتوں سے{ اس کے پاس باتیں ہی باتیں ہیں عمل کوئی نہیں}
دینِ اُو عہد وفا بَستَن بہ غیر
یعنی از خِشتِ حَرَم تعمیرِ دَیر
اسکا دین غیروں سے پیمانِ وفا باندھنا ہے
وہ گویا حرم کو{ گرا کر اس} کی اینٹ سے بتکدے کی تعمیر کرتا ہے
آہ قومے دِل ز حَق پَرداختہ
مُرد و مَرگِ خویش را نَشُناختہ
افسوس ہے ایسی قوم پر جس نے حق سے دل ہٹالیا
جو مرچکی ہے مگر اپنی اس موت کو پہچانتی نہیں
"پس چہ باید کرد" علامہ محمد اقبال رح
کارِ اُو فکرِ مَعاش و تُرسِ مَرگ
{ایسی قوم} جو ہر لمحہ بس ساز وسامان{روپے پیسے} ہی کے چکر میں رہتی ہے
اس کا کام روزی کی فکر اور موت سے ڈرنا ہے
مُنعمانِ اُو بَخیل و عیش دوست
غافل اَز مغزاند و اندر بَندِ پوست
اس قسم کے دولت مند کنجوس لیکن عیاش ہوتے ہیں
وہ {رسوم} کے چھلکے میں گرفتار اور {حقیقت کے} مغز سے غافل ہوتے ہیں
قوتِ فرمانروا معبودِ اُو
دَر زیانِ دین و ایمان سُودِ اُو
حکمران کی قوت ان کی معبود ہے
وہ دین ایمان کے نقصان میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں
اَز حدِ امروز خود بیروں نَجِست
روزگارِش نقشِ یَک فردا نَبَست
وہ اپنے امروز{آج} کے حد سے باہر نہیں نکلتی
اس کی زندگی میں ایک کل کا نقش بھی ثبت نہیں ہوتا
اَز نیاگاں دفترے اَندر بغل
اَلامان اَز گفتہ ہائے بے عمل
وہ اپنے اسلاف { کے ناموں} کا دفتر بغل میں دبائے پھرتی ہیں
خدا کی پناہ، اس کی بے عمل باتوں سے{ اس کے پاس باتیں ہی باتیں ہیں عمل کوئی نہیں}
دینِ اُو عہد وفا بَستَن بہ غیر
یعنی از خِشتِ حَرَم تعمیرِ دَیر
اسکا دین غیروں سے پیمانِ وفا باندھنا ہے
وہ گویا حرم کو{ گرا کر اس} کی اینٹ سے بتکدے کی تعمیر کرتا ہے
آہ قومے دِل ز حَق پَرداختہ
مُرد و مَرگِ خویش را نَشُناختہ
افسوس ہے ایسی قوم پر جس نے حق سے دل ہٹالیا
جو مرچکی ہے مگر اپنی اس موت کو پہچانتی نہیں
"پس چہ باید کرد" علامہ محمد اقبال رح
0 comments:
Post a Comment