آں حرفِ دِل فروز کہ راز ہَست و راز نیست
مَن فاش گویَمَت کہ شُنید اَز کُجا شُنید
وہ دل چمکانے والا حرف جو راز ہے اور نہیں بھی
میں تمہیں کھول کر بتاتا ہوں کہ اسے کس سے سنا؟ اور کہا سے سنا؟
دُزدید ز آسماں و بہ گُل گُفت شَبنَمِش
بُلبُل ز گُل شُنید و ز بُلبُل صَبا شُنید
شبنم نے اس حرف کو آسمان سے چرایا اور پھول کو بتایا
بلبل نے پھول سے سنا اور بلبل سے صبا نے { پھر صبا نے اسے عام کردیا}
{نوٹ: "شبنم" علامہ رح کی شاعری میں فیضانِ سماوی کی مظہر ہے کیونکہ وہ اوپر سے آتی ہے۔ بوساطتِ شبنم آسمان سے آئی ہے}
"پیامِ مشرق" علامہ محمد اقبال رح
آں حرفِ دِل فروز کہ راز ہَست و راز نیست
مَن فاش گویَمَت کہ شُنید اَز کُجا شُنید
وہ دل چمکانے والا حرف جو راز ہے اور نہیں بھی
میں تمہیں کھول کر بتاتا ہوں کہ اسے کس سے سنا؟ اور کہا سے سنا؟
دُزدید ز آسماں و بہ گُل گُفت شَبنَمِش
بُلبُل ز گُل شُنید و ز بُلبُل صَبا شُنید
شبنم نے اس حرف کو آسمان سے چرایا اور پھول کو بتایا
بلبل نے پھول سے سنا اور بلبل سے صبا نے { پھر صبا نے اسے عام کردیا}
{نوٹ: "شبنم" علامہ رح کی شاعری میں فیضانِ سماوی کی مظہر ہے کیونکہ وہ اوپر سے آتی ہے۔ بوساطتِ شبنم آسمان سے آئی ہے}
"پیامِ مشرق" علامہ محمد اقبال رح
مَن فاش گویَمَت کہ شُنید اَز کُجا شُنید
وہ دل چمکانے والا حرف جو راز ہے اور نہیں بھی
میں تمہیں کھول کر بتاتا ہوں کہ اسے کس سے سنا؟ اور کہا سے سنا؟
دُزدید ز آسماں و بہ گُل گُفت شَبنَمِش
بُلبُل ز گُل شُنید و ز بُلبُل صَبا شُنید
شبنم نے اس حرف کو آسمان سے چرایا اور پھول کو بتایا
بلبل نے پھول سے سنا اور بلبل سے صبا نے { پھر صبا نے اسے عام کردیا}
{نوٹ: "شبنم" علامہ رح کی شاعری میں فیضانِ سماوی کی مظہر ہے کیونکہ وہ اوپر سے آتی ہے۔ بوساطتِ شبنم آسمان سے آئی ہے}
"پیامِ مشرق" علامہ محمد اقبال رح
0 comments:
Post a Comment